Thursday, 17 December 2020

جب ترے شہر میں صحرا سے ہوا آئے گی

 جب تِرے شہر میں صحرا سے ہوا آئے گی

مِری بابت تِرے لوگوں کو بتا آئے گی

جن کتابوں کو میں املاک سمجھ بیٹھا ہوں

میری اولاد وہ دریا میں بہا آئے گی

سانس لیتے ہوئے لاشے سے ملاقات تو کر

دل کی دھک دھک سے بھی ہچکی کی صدا آئے گی

ایک مجذوب نے انگلی کے اشارے سے کہا

آسماں رویا تو پھر بادِ صبا آئے گی

تُو بصد شوق مِرے جسم کو چھلنی کر دے

پھر بھی ہونٹوں پہ تِرے حق میں دعا آئے گی

یہ خموشی مِری پہچان بنی پِھرتی ہے

کیا مجھے راس کبھی میرے خدا آئے گی

پہلے جی بھر کے تماشہ مجھے بننا ہو گا

تب کہیں جا کے مِری سمت قضا آئے گی

غمزدہ باپ کی دستار کی خاطر بیٹی

قبر کھودے گی، محبت کو دبا آئے گی

مجھ کو ہر شکل میں سورج کو بجھانا ہو گا

ورنہ چہروں کی کدورت سے حیا آئے گی

میں نے بپھری ہوئی آندھی کے ہیں تیور دیکھے

پیڑ جتنے بھی ہیں رستے میں گِرا آئے گی

پہلے دنیا تِرے افکار کو پوجے گی یہاں

پھر وہ دیوار سے تجھ کو بھی لگا آئے گی

مرنے والوں کو وہ خوش بخت کہے گا دانش

جس کے حصے میں بھی جینے کی سزا آئے گی


دانش عزیز

No comments:

Post a Comment