بھیگتے دسمبر میں
بارشوں کے موسم میں
ضبط کیسے کرتے ہیں
ہم تمہیں بتائیں گے
درد کیسے سہتے ہیں
آنسو کیسے پیتے ہیں
ہم تمہیں سکھائیں گے
اب کے بار لگتا ہے
تم جو لوٹ آؤ گے
ٹوٹتے ہوئے سپنے
آنکھ میں بھر جاؤ گے
پر اگر نہ ہو ایسا
اس برس دسمبر میں
تم اگر نہیں آئے
سپنے بھی نہ سج پائے
ہم بھی روٹھ جائیں گے
اور
یاد رکھنا تم
مٹی کے یہ کوزے پھر ٹوٹ پھوٹ جائیں گے
کوزہ گر کے آنے سے
چاک کو گھمانے سے مُورتی نہیں بنتی
جب تلک کسی کے پاس
ہونے کا یقیں نہ ہو
ایسا کم ہی ہوتا ہے
اس برس کلینڈر میں
بھِیگتے دسمبر میں
ہم نے سوچ رکھا ہے
ہم تجھے منائیں گے
ضبط بھی دکھائیں گے
آنسو کیسے پیتے ہیں
یہ بھی اب سکھائیں گے
بارشوں کے موسم میں
عجیب ساجد
No comments:
Post a Comment