Thursday, 17 December 2020

چاہا ہے تجھے میں نے تری ذات سے ہٹ کر

 چاہا ہے تجھے میں نے تری ذات سے ہٹ کر

اس بار کھڑا ہوں میں روایات سے ہٹ کر

تم عشق کے قصے مجھے آکر نہ سناؤ

دنیا میں نہیں کچھ بھی مفادات سے ہٹ کر

جس شخص کو پوجا تھا اسے مانگ رہا ہوں

میں مانگ رہا ہوں اسے اوقات سے ہٹ کر

ہاں سوچ رہا ہوں میں تجھے اپنا بنا لوں

ہاں سوچ رہا ہوں میں خیالات سے ہٹ کر

واعظ نے کہا؛ عقل کہاں پر ہے تمہاری؟

میں نے یہ کہا؛ خلد کے باغات سے ہٹ کر

غم یہ ہے کہ میں اپنے قبیلے کا بڑا ہوں

چلنا ہی پڑے گا مجھے سقراط سے ہٹ کر

رہنا ہے مجھے اس کی تمنا سے بہت دور

رہنا ہے مجھے ہجر کے حالات سے ہٹ کر


شہزاد مہدی

No comments:

Post a Comment