Tuesday 27 April 2021

سنو اس کینوس کا ایک گوشہ اب بھی خالی ہے

 کینوس


سنو

اس کینوس کا ایک گوشہ

اب بھی خالی ہے

یہ جو میں نے اتارا ہے

حسیں پیکر، فقط پیکر نہیں ہے یہ

ہے اس میں دھڑکنیں اور گرم سانسیں، آہیں، سسکاری

کچھ اک ہیں ان کہے سے شبد

مبہم سے

خود اپنے آپ سے کچھ کی گئی

خاموش باتیں ہیں

ہیں ٹوٹے خواب کے منظر

جھکی پلکوں کے نیچے

سرخ ڈوروں پر

یہ جو خاموش لب ہیں

پیاسے پیاسے سے

گلابی رنگ کے اندر

سے ابھری ہیں زباں پھیری ہوئی

کچھ پپڑیاں

کیا کہنے والی ہیں؟

کتابی چہرے پہ بکھری سیہ زلفیں

تمہارے حسن کو دو آتشہ کر کے

بہت مغرور لگتی ہیں

ابھی رخساروں پہ کچھ سرخ سی

حدت سلامت ہے

یہاں گردن پہ کچھ نیلی رگیں شاید

تمہاری دھڑکنوں کی ترجماں بن کر

بڑی شدت سے ابھری ہیں

ذرا سا خم ہے چہرہ اور تمہاری

دھڑکنوں کے زیر و بم کو گن رہی شاید

تمہاری جھیل سی آنکھیں

گھنیری پلکوں پہ بیٹھے ہوئے

کچھ ہجر کے جگنو

ادھورے شبنمی لمحے

بہت روئی ہو تم تصویر میں

آنے سے پہلے نا

یہ میرے قرب کے لمحے

ہر اک آنسو سبھی آہیں سبھی سسکاریاں

ضم کرنے والے ہیں

ابھی خود میں

ذرا سا وقت دو جاناں! سکوں بھرنے میں تھوڑا وقت لگتا ہے

برش بھی منہمک ہے رنگ بھرنے میں

مگر پہلو بدلنے سے

برش کے زاویے تبدیل ہوتے ہیں

بس اب اک آخری ٹچ مجھ کو دینا

یہ جو کونے پہ نیچے

خالی گوشہ ہے

میں اپنا نام لکھ دوں کیا؟

یا پھر خالی ہی رہنے دوں

بتاؤ نا؟


دلشاد نظمی

No comments:

Post a Comment