Monday, 26 April 2021

یہ سیل اشک مجھے گفتگو کی تاب تو دے

 یہ سیلِ اشک مجھے گفتگو کی تاب تو دے

جو یہ کہوں کہ وفا کا مِری حساب تو دے

بھری بہار رُتوں میں بھی خار لے آئی

یہ انتظار کی ٹہنی کبھی گُلاب تو دے

نہیں نہیں میں وفا سے کنارہ کش تو نہیں

وہ دے رہا ہے مجھے ہجر کا عذاب تو دے

یہ خامشی تو قیامت کی جان لیوا ہے

وہ دل دُکھائے مگر بات کا جواب تو دے

ہر ایک واقعہ تاریخ دار لکھ جاؤں

گئے دنوں کی مِرے ہاتھ وہ کتاب تو دے

یہ دیکھ کس گُلِ تر پر نگاہ ٹھہری ہے

نہ دے وہ پھول مجھے داد انتخاب تو دے

گناہ گار سہی پھر بھی میرے حصے کا

تری طرف جو نکلتا ہے وہ ثواب تو دے


صبیحہ صبا

No comments:

Post a Comment