Monday, 26 April 2021

وہ زرد چہرہ معطر نگاہ جیسا تھا

 وہ زرد چہرہ معطر نگاہ جیسا تھا

ہوا کا روپ تھا بولو تو آہ جیسا تھا

علیل وقت کی پوشاک تھا بخار اس کا

وہ ایک جسم تھا لیکن کراہ جیسا تھا

بھٹک رہا تھا اندھیرے میں درد کا دریا

وہ ایک رات کا جگنو تھا راہ جیسا تھا

گلی کے موڑ پہ ٹھہرا ہوا تھا اک سایہ

لباس چپ کا بدن پر نباہ جیسا تھا

چلا تو سائے کے مانند ساتھ ساتھ چلا

رکا تو میرے لیے مہر و ماہ جیسا تھا

قریب دیکھ کے اس کو یہ بات کس سے کہوں

خیال دل میں جو آیا گناہ جیسا تھا

بہت سی باتوں میں مجبور تھا وہ ہم سے بھی

تکلفات میں عالم پناہ جیسا تھا

خبر کے اُڑتے ہی یونہی کہ مر گیا ماجد

پرانے گھر کا سماں جشن گاہ جیسا تھا


ماجد الباقری

No comments:

Post a Comment