وہ زرد چہرہ معطر نگاہ جیسا تھا
ہوا کا روپ تھا بولو تو آہ جیسا تھا
علیل وقت کی پوشاک تھا بخار اس کا
وہ ایک جسم تھا لیکن کراہ جیسا تھا
بھٹک رہا تھا اندھیرے میں درد کا دریا
وہ ایک رات کا جگنو تھا راہ جیسا تھا
گلی کے موڑ پہ ٹھہرا ہوا تھا اک سایہ
لباس چپ کا بدن پر نباہ جیسا تھا
چلا تو سائے کے مانند ساتھ ساتھ چلا
رکا تو میرے لیے مہر و ماہ جیسا تھا
قریب دیکھ کے اس کو یہ بات کس سے کہوں
خیال دل میں جو آیا گناہ جیسا تھا
بہت سی باتوں میں مجبور تھا وہ ہم سے بھی
تکلفات میں عالم پناہ جیسا تھا
خبر کے اُڑتے ہی یونہی کہ مر گیا ماجد
پرانے گھر کا سماں جشن گاہ جیسا تھا
ماجد الباقری
No comments:
Post a Comment