گھر میں ہو کر بھی پس دیوار و در ملتے نہیں
ہم جہاں ہوتے ہیں خود کو ہی ادھر ملتے نہیں
ہیں مقدر میں اندهیرے محو رقصاں دوستو
راستے روشن ہوں کتنے چارہ گر ملتے نہیں
لے گیا طوفان اب کے سب یہاں کی رونقیں
بستیاں موجود ہیں لیکن بشر ملتے نہیں
آنکھ والوں کے نگر میں دیکھنا بھی جرم ہے
ڈھونڈنے نکلو تو دھڑ ملتے ہیں سر ملتے نہیں
خشک سالی کا گِلہ اب کیجئے کس سے غزل
ڈھونڈنے نکلوں اگر چھایا، شجر ملتے نہیں
حیاء غزل
No comments:
Post a Comment