Monday, 26 April 2021

مسلسل دستکیں دیتی ہیں بارش میں ہوائیں

 مسلسل دستکیں دیتی ہیں بارش میں ہوائیں

تجھے اے ہجر کے حاصل کہاں سے ڈھونڈ لائیں

تو کیا ان کاغذی پھولوں کو بالوں میں سجائیں

وہ وعدے یاد رکھیں یا انہیں ہم بھول جائیں

کوئی آواز دیتا ہے، کنارے چیختے ہیں

کہیں پر ڈوبتی کشتی کی سنتی ہوں صدائیں

مجھے دریا کے اس پار آج بھی جانا ہے مشکل

میرے رستے میں حائل ہیں رواجوں کی بلائیں

مِرا رنگِ سخن، ہر پَل سنورتا جا رہا ہے

کہ میرے ساتھ ہیں ہر دم مِری ماں کی دعائیں

تِرا دامن، تِری پاکیزگی کا آئینہ ہو

نہ میلی ہوں کبھی اے حُرمتِ حوا ردائیں

دریچے میں دُھلی یہ چاندنی، پھولوں کے تختے

اے یادِ عہدِ ماضی! آ، تجھے ہم گنگنائیں

متاعِ فکر، درسِ زندگی، تا بندگی ہو

شعورِ دہر میں گونجیں یہی ہر دم صدائیں


صائمہ نورین

No comments:

Post a Comment