مسلسل دستکیں دیتی ہیں بارش میں ہوائیں
تجھے اے ہجر کے حاصل کہاں سے ڈھونڈ لائیں
تو کیا ان کاغذی پھولوں کو بالوں میں سجائیں
وہ وعدے یاد رکھیں یا انہیں ہم بھول جائیں
کوئی آواز دیتا ہے، کنارے چیختے ہیں
کہیں پر ڈوبتی کشتی کی سنتی ہوں صدائیں
مجھے دریا کے اس پار آج بھی جانا ہے مشکل
میرے رستے میں حائل ہیں رواجوں کی بلائیں
مِرا رنگِ سخن، ہر پَل سنورتا جا رہا ہے
کہ میرے ساتھ ہیں ہر دم مِری ماں کی دعائیں
تِرا دامن، تِری پاکیزگی کا آئینہ ہو
نہ میلی ہوں کبھی اے حُرمتِ حوا ردائیں
دریچے میں دُھلی یہ چاندنی، پھولوں کے تختے
اے یادِ عہدِ ماضی! آ، تجھے ہم گنگنائیں
متاعِ فکر، درسِ زندگی، تا بندگی ہو
شعورِ دہر میں گونجیں یہی ہر دم صدائیں
صائمہ نورین
No comments:
Post a Comment