موجِ خوں سر سے گزرتی ہے گزر جانے دو
کہیں یہ گردشِ ایام ٹھہر جانے دو
اٹھنے والی ہے کوئی دَم میں ستاروں کی بساط
اور کچھ دیر کا نشہ ہے، اُتر جانے دو
راہ میں روک کے احوال نہ پوچھو ہم سے
ابھی باقی ہے بہت اپنا سفر، جانے دو
ابھی ہنگام نہیں راہ میں دَم لینے کا
ابھی یہ قافلۂ اہلِ نظر جانے دو
لب پہ آ آ کے رہی جاتی ہیں کتنی باتیں
ہمیں کہنا تو بہت کچھ ہے مگر جانے دو
تبسم رضوی
No comments:
Post a Comment