تنہا کر کے مجھ کو صلیب سوال پہ چھوڑ دیا
میں نے بھی دنیا کو اس کے حال پہ چھوڑ دیا
اک چنگاری، اک جگنو، اک آنسو اور اک پھول
جاتے ہوئے کیا کیا اس نے رومال پہ چھوڑ دیا
پارہ پارہ خوشبو چکراتی ہے کمرے میں
آگ جلا کے شِیرہ اس نے اُبال پہ چھوڑ دیا
پہلے اس نے برسائے آکاش پہ سارے تیر
پھر دھیرے سے گھوڑے کو پاتال پہ چھوڑ دیا
اٹھنے والا ہے بازار، کہوں کیا یوسف سے
سِکوں کا تھیلا میں نے ٹکسال پہ چھوڑ دیا
پشمینے سا ماضی تھا تفضیل سمور سا حال
مستقبل کو اُونی ہوا کی تال پہ چھوڑ دیا
تفضیل احمد
No comments:
Post a Comment