میں اک نظم جینا چاہتا ہوں
میں ایک نظم لکھوں گا
مفتوح زمینوں پہ فاتح گھوڑوں کی ٹاپوں کی
نخوت پر
اور ایک غلام کی آزادی پہ
ایک بلکتی ہوئی نظم
میں اُدھڑی ہوئی اوزون کی تہہ کو
اپنی نظم کے دھاگے سے سیؤں گا
میں منافق مسکراہٹ کی سیاہی پہ
اور دماغ کی چراگاہ میں ادھر ادھر بھٹکتے
خود کُشی کے خیال پر
ایک خاموش نظم لکھوں گا
میں گرتے ہوئے اشک سے جدا ہونے پہ
ایک اداس
اور زمستاں کی رگوں میں
جمتے ہوئے خون پہ
ایک حرارت بھری نظم لکھوں گا
میں ایک روزن بناؤں گا
نظم کی گھٹن دور کرنے کو
میں لفظ سے سانس کھینچنے کی
کاوش کو نظم کروں گا
میں خیال کے بکھراؤ پہ ایک
سمٹی ہوئی نظم لکھوں گا
اور اس میں ایک سمندر
اور اس کا ساحل بناؤں گا
میں اس ساحل پہ بیٹھ کر
اک نظم لکھتے ہوئے
اپنی نظم کے اندر اک اور نظم جیؤں گا
ثاقب ندیم
No comments:
Post a Comment