یار! اس چیز کا بازار نہیں ہو گا کیا
خواب کا کوئی خریدار نہیں ہو گا کیا
ہاتھ کا لمس حرارت تو نہیں دے پایا
اس کا مطلب ہے اُسے پیار نہیں ہو گا کیا
میں نے دریا کے کناروں کو ملانا چاہا
میری محنت سے تو انکار نہیں ہو گا کیا
مستقل خواب کا حصہ ہی بنا پھرتا ہے
تُو کبھی نیند سے بیدار نہیں ہو گا کیا
اس کنارے سے اگر صاف نظر آتا ہے
پھر سفر پار کا بے کار نہیں ہو گا کیا
فیصل صاحب
No comments:
Post a Comment