Wednesday, 15 September 2021

شہر غم دنیا سے گزرتے ہوئے کچھ خواب

 شہرِ غمِ دنیا سے گزرتے ہوئے کچھ خواب

اترے ہیں مِری آنکھ میں ڈرتے ہوئے کچھ خواب

میں آج بھی تعبیر کے دریا میں کھڑا ہوں

وہ سونپ گیا تھا مجھے مرتے ہوئے کچھ خواب

دیکھا ہے کئی ماؤں کو دنیا کی نظر نے

اِس شہر کے فٹ پاتھ پہ دھرتے ہوئے کچھ خواب

چھوٹی سی تو دنیا ہے مِرے عشق و جنوں کی

میں، تُو، تِری یاد اور بکھرتے ہوئے کچھ خواب

کچھ یوں بھی میں اب آئینہ گھر میں نہیں رکھتا

میں نے کبھی دیکھے تھے سنورتے ہوئے کچھ خواب

شام اُن کو سُلا دیتی ہے تاروں کی لحد میں

لے آتا ہے سُورج جو اُبھرتے ہوئے کچھ خواب

بستے ہیں مِرے درد کے صحرا میں بھی صائم

کھِلتے ہوئے کچھ پھول، نکھرتے ہوئے کچھ خواب


عبدالباسط صائم

No comments:

Post a Comment