خواب جب آنکھ کے پردے پہ اتر آتے ہیں
جسم سے روح ملاتے ہیں چلے جاتے ہیں
ایک کشتی کے مسافر ہیں تو پھر بات سنو
ایک دوجے کا بدن اوڑھ کے چھپ جاتے ہیں
ہائے، وہ دل کہ تِری یاد بسی ہے جس میں
ہائے، وہ آنکھ جسے خواب تِرے آتے ہیں
کیسے بوسہ لیا جاتا ہے حسیں ہونٹوں کا
تُو کسی روز ہمیں مل تجھے سمجھاتے ہیں
چاند رہتا ہے تعاقب میں تِرے چہرے کے
باغ میں پھول تجھے دیکھ کے شرماتے ہیں
جب کہیں اور ٹھکانہ ہی نہیں ہے اپنا
تیری بانہوں کی طرف دوڑے چلے آتے ہیں
تم سے دو لفظ محبت کے ملیں جب ناہید
ہم خیالوں میں بہت دور نکل جاتے ہیں
ناہید کیانی
No comments:
Post a Comment