سحر کے بعد بھی جو لوگ جاگنے سے رہے
کسی بھی خواب کی تعبیر دیکھنے سے رہے
ہٹا رہے ہیں سبھی راہ سے مِری پتھر
وہ میرے پاؤں کی زنجیر کاٹنے سے رہے
ہو دو قدم کی ہی دوری پہ تم کھڑے لیکن
قدم بڑھا کے مِرا ہاتھ تھامنے سے رہے
میں آئینہ ہوں تمہارا اسی سبب سے تم
مِرے وجود کی خوبی کو ڈھونڈنے سے رہے
ہے مختصر یہ کہانی کہ وہ مِرے نا ہوئے
رہے پلٹنے سے وہ ہم بھی روکنے سے رہے
زمانہ دوڑ رہا ہے یہ کیسی دوڑ حنا
جو گھر سے نکلے وہ پھر گھر کو لوٹنے سے رہے
حنا عباس
No comments:
Post a Comment