Wednesday, 15 September 2021

سحر کے بعد بھی جو لوگ جاگنے سے رہے

 سحر کے بعد بھی جو لوگ جاگنے سے رہے

کسی بھی خواب کی تعبیر دیکھنے سے رہے

ہٹا رہے ہیں سبھی راہ سے مِری پتھر

وہ میرے پاؤں کی زنجیر کاٹنے سے رہے

ہو دو قدم کی ہی دوری پہ تم کھڑے لیکن

قدم بڑھا کے مِرا ہاتھ تھامنے سے رہے

میں آئینہ ہوں تمہارا اسی سبب سے تم

مِرے وجود کی خوبی کو ڈھونڈنے سے رہے

ہے مختصر یہ کہانی کہ وہ مِرے نا ہوئے

رہے پلٹنے سے وہ ہم بھی روکنے سے رہے

زمانہ دوڑ رہا ہے یہ کیسی دوڑ حنا

جو گھر سے نکلے وہ پھر گھر کو لوٹنے سے رہے


حنا عباس

No comments:

Post a Comment