Wednesday, 15 September 2021

دیدۂ تر نے عجب جلوہ گری دیکھی ہے

 دیدۂ تر نے عجب جلوہ گری دیکھی ہے

غم نے جس شاخ کو پالا وہ ہری دیکھی ہے

ہائے کس بت کی خدائی کا بھرم ٹوٹا ہے

خلق نے آج ان آنکھوں میں تَری دیکھی ہے

نہ ملا پر نہ ملا عشق کو اندازِ جنوں

ہم نے مجنوں کی بھی آشفتہ سری دیکھی ہے

آب و گل غنچہ و گل دیدہ و دل شمس و قمر

کن حجابوں میں تِری پردہ دری دیکھی ہے

ہاں کبھی کھل نہ سکا پھول پہ مضمون بہار

او صبا! ہم نے تِری نامہ بری دیکھی ہے

کون اسیرِ غمِ کوتاہیٔ پرواز نہیں

کس نے صیاد کی بے بال و پری دیکھی ہے


انور معظم

No comments:

Post a Comment