ہر ایک سوج کا یکساں نصاب کر دیں گے
خراب حال تمہیں یوں خراب کر دیں گے
کبھی تو ان کو سمندر کنارے لاتے تم
کہ جن کا دعویٰ تھا پانی شراب کر دیں گے
کسے خبر تھی کہ دو چار بول پیار بھرے
ہماری زندگی اتنی عذاب کر دیں گے
رقم کریں گے کہانی کو ایسے ماتھے پر
تمہارے واسطے چہرہ کتاب کر دیں گے
یقیں نہیں تھا کبھی ایک دوسرے کو ہم
حقیقتوں سے پرے محوِ خواب کردیں گے
فیصل صاحب
No comments:
Post a Comment