تیرگی سے جنگ کرنے کی سزا پاتا ہوں میں
دن میں بھی اب نیند آور گولیاں کھاتا ہوں میں
دیدنی ہے منتشر ذہنی کی کیفیت مِری
اب تو چیزوں پر توجہ کھینچ کر لاتا ہوں میں
بولنے میں ٹھیک کر لیتا ہوں اپنے شین قاف
عشق ہو تو عین سے آگے نہیں جاتا ہوں میں
میرے کمرے کے در و دیوار نیلے ہیں تو کیا
سانس لینے کے بہانے زہر پھیلاتا ہوں میں
ایک دن سونے کے سکوں سے خریدوں گا تجھے
دیکھ لے اب دور کی بھی کوڑیاں لاتا ہوں میں
بے سبب ٹھہرے نہیں دنیا کے چوراہے پہ لوگ
ان سے بھی اس نے کہا ہو گا ابھی آتا ہوں میں
ذیشان اطہر
No comments:
Post a Comment