قافلے اور بھی تھے ساتھ نہ آنے والے
ایک بس تم ہی نہیں چھوڑ کے جانے والے
شام ہوتے ہی نگاہوں میں اتر آتے ہیں
اب تلک یاد ہیں وہ لوگ بھلانے والے
چل دئیے خاک اندھیروں کے حوالے کر کے
لاد کر کاندھوں پہ لائے تھے زمانے والے
وقت آخر مِرا جلنا تھا مقدر، لیکن
عمر بھر خوب جلے مجھ کو جلانے والے
یہ خوشی کم تھی محبت میں کہ غم ملتے تھے
اب تو وہ غم بھی نہیں دل کو دکھانے والے
دل نے کب خرد کی مانی ہے اے دنیا والو
ورنہ کچھ لوگ میسر تھے بتانے والے
اب سحر پانی کی لہروں کا انتظام کرو
آ گئے آگ کی جُنبش کو بڑھانے والے
عفراء بتول سحر
No comments:
Post a Comment