Sunday 24 April 2022

بس ایک مسافر کو ستاروں کا گماں ہے

 بس ایک مسافر کو ستاروں کا گماں ہے

اس کو ہے خبر کیا یہ پتنگوں کا جہاں ہے

ہے چاک گریبان مِرا یہ تو بتاؤ

اس شہرِ خراباں میں رفوگر کی دُکاں ہے

آ دیکھ مِری آنکھ سے آئے گا نظر سب

دنیا کی حقیقت تو محض ایک دھواں ہے

پُر کیف نظاروں سے جہاں اس نے سجایا

پھر یہ بھی کہا ساتھ کہ عبرت کا مکاں ہے

افسردہ چمن میں ہوں بھلا کیسی بہاریں

ہر پھول پہ گلشن کے مسلط جو خزاں ہے

میں درد پہ چیخوں یہ ضروری تو نہیں ہے

نادان! خموشی بھی تو اندازِ فغاں ہے

یونہی تو چراغوں پہ نہیں خوف ہے طاری

پیچیده ہوائیں کسی خطرے کا نشاں ہے


محسن کشمیری

No comments:

Post a Comment