بس ایک مسافر کو ستاروں کا گماں ہے
اس کو ہے خبر کیا یہ پتنگوں کا جہاں ہے
ہے چاک گریبان مِرا یہ تو بتاؤ
اس شہرِ خراباں میں رفوگر کی دُکاں ہے
آ دیکھ مِری آنکھ سے آئے گا نظر سب
دنیا کی حقیقت تو محض ایک دھواں ہے
پُر کیف نظاروں سے جہاں اس نے سجایا
پھر یہ بھی کہا ساتھ کہ عبرت کا مکاں ہے
افسردہ چمن میں ہوں بھلا کیسی بہاریں
ہر پھول پہ گلشن کے مسلط جو خزاں ہے
میں درد پہ چیخوں یہ ضروری تو نہیں ہے
نادان! خموشی بھی تو اندازِ فغاں ہے
یونہی تو چراغوں پہ نہیں خوف ہے طاری
پیچیده ہوائیں کسی خطرے کا نشاں ہے
محسن کشمیری
No comments:
Post a Comment