Saturday, 23 April 2022

ایک آنسو ہی بہا سکتا میں

 ایک آنسو ہی بہا سکتا میں

شہر کو جس میں بہا سکتا میں

کوئی رکتا کہ نہ رکتا، لیکن

ایک آواز لگا سکتا میں

دیکھتا رہتا ہوں پتھر کی طرف

کاش رستے سے ہٹا سکتا میں

قید میں اتنی اجازت ہوتی

اپنی زنجیر ہلا سکتا میں

خیر دنیا سے تو کیا لڑ سکتا

خود سے ہی جان چھڑا سکتا میں

کیا تھا اس کارِ سُخن میں درکار

ایک دو شعر کما سکتا میں


قمر رضا شہزاد

No comments:

Post a Comment