ایک آنسو ہی بہا سکتا میں
شہر کو جس میں بہا سکتا میں
کوئی رکتا کہ نہ رکتا، لیکن
ایک آواز لگا سکتا میں
دیکھتا رہتا ہوں پتھر کی طرف
کاش رستے سے ہٹا سکتا میں
قید میں اتنی اجازت ہوتی
اپنی زنجیر ہلا سکتا میں
خیر دنیا سے تو کیا لڑ سکتا
خود سے ہی جان چھڑا سکتا میں
کیا تھا اس کارِ سُخن میں درکار
ایک دو شعر کما سکتا میں
قمر رضا شہزاد
No comments:
Post a Comment