بن آئی نہیں ہم سے کوئی صورتِ انکار
کرنا ہی پڑا ان سے ہمیں وصل کا اقرار
افسوس تو یہ ہے کہ نہیں صاحبِ کردار
جس شخص کے افکار کی دنیا میں ہے مہکار
دارو بھی ضروری ہے معالج بھی ہو، لیکن
جذبہ نہ ہو بیماری سے اُٹھتا نہیں بیمار
آتے ہیں خرد میں تو نہیں بھی ہیں یہ آتے
سادہ ہیں تو گنجلک بھی بہت عشق کے اسرار
زندہ تھی وہ بی بی تو اجالوں کی کرن تھی
جاں دے کے جو دھرتی میں فزوں کر گئی انوار
ہاتھوں میں کبھی جن کے تھیں قوموں کی لگامیں
ملتے نہیں اب ان کے جہاں میں کہیں آثار
پہلے تو زمانے کی ہر اک چیز تھی سانجھی
اب اس کی کسی بات سے مطلب نہ سروکار
تقسیم خوشی کرتا ہوں میں اہلِ جہاں میں
احباب نے دو بانٹ لئے آئے جو غم چار
ہیں اہلِ ہوس کے لئے پھولوں کے بچھونے
عشاق کی خاطر سرِبازار سجے دار
احمد تمہیں قدرت نے عطا کر دیا موقع
جی بھر کے کرو پیار کا محبوب سے اظہار
شکیل احمد
No comments:
Post a Comment