شاید کوئی کمی میرے اندر کہیں پہ ہے
میں آسماں پہ ہوں مِرا سایہ زمیں پہ ہے
افسانۂ حیات کا ہر ایک سانحہ
تحریر حرف حرف ہماری جبیں پہ ہے
دریا میں جس طرح سے ہو ماہی اسی طرح
میں ہوں جہاں پہ میرا خدا بھی وہیں پہ ہے
جنت خدا ہی جانے کہاں ہے کہاں نہیں
مجھ کو یقین ہے کہ جہنم یہیں پہ ہے
یوں جی رہے ہیں سخت اذیت کے باوجود
دار و مدار زیست کا جیسے ہمیں پہ ہے
اس طرح فاصلوں پہ فتح پا چکے ہیں ہم
اک پاؤں آسمان پہ ہے، اک زمیں پہ ہے
شاداب حسن و عشق مساوی ہیں آج کل
الزام مجھ پہ ہے وہی اس نازنیں پہ ہے
عقیل شاداب
No comments:
Post a Comment