Tuesday 26 April 2022

میں بھی روشن ہوں جمال رخ جاناں میں کہیں

 میں بھی روشن ہوں جمال رخ جاناں میں کہیں

خاک پروانہ بھی ہے شعلۂ عریاں میں کہیں

کسی پیکر میں بھی پہچان نہیں ہے اس کی

کیا سراغ اس کا ملے دشت و گلستاں میں کہیں

ہجر کے داغ میں تبدیل ہوا لمحۂ وصل

تھی کمی کوئی مِرے شوق فراواں میں کہیں

جل گیا باغ مگر شمع نمو خیز کی لو

سبز ہے ہر شجر سوختہ ساماں میں کہیں

مجھ کو شعلوں میں بھی جینے کا سکھاتا ہے ہنر

اک سمندر مِرے آتش کدۂ جاں میں کہیں

اپنی وحشت کا غبار اٹھتے ہوئے دیکھتا ہوں

میں بھی ہوں اپنے ہی آہوئے گریزاں میں کہیں

عشرت اک حرف بشارت تھی وہ آواز قدم

اک چراغ اور جلا خانۂ امکاں میں کہیں


عشرت ظفر

No comments:

Post a Comment