میں بھی روشن ہوں جمال رخ جاناں میں کہیں
خاک پروانہ بھی ہے شعلۂ عریاں میں کہیں
کسی پیکر میں بھی پہچان نہیں ہے اس کی
کیا سراغ اس کا ملے دشت و گلستاں میں کہیں
ہجر کے داغ میں تبدیل ہوا لمحۂ وصل
تھی کمی کوئی مِرے شوق فراواں میں کہیں
جل گیا باغ مگر شمع نمو خیز کی لو
سبز ہے ہر شجر سوختہ ساماں میں کہیں
مجھ کو شعلوں میں بھی جینے کا سکھاتا ہے ہنر
اک سمندر مِرے آتش کدۂ جاں میں کہیں
اپنی وحشت کا غبار اٹھتے ہوئے دیکھتا ہوں
میں بھی ہوں اپنے ہی آہوئے گریزاں میں کہیں
عشرت اک حرف بشارت تھی وہ آواز قدم
اک چراغ اور جلا خانۂ امکاں میں کہیں
عشرت ظفر
No comments:
Post a Comment