تمہاری بستی میں کارخانہ لگا ہوا ہے
ہمارے جیسوں کا آب و دانہ لگا ہوا ہے
یہاں کوئی چیز بھی نہیں ہو رہی ہے تعمیر
یہ سب عبث توڑنا بنانا لگا ہوا ہے
مِری روش تو زمانے سے تھوڑی مختلف ہے
مِرے تعاقب میں کیوں زمانہ لگا ہوا ہے
اک ایسے گھوڑے کی باگ ہاتھوں میں دی گئی ہے
جسے مقدر کا تازیانہ لگا ہوا ہے
میں رات کے آخری پہر سے یہ کہہ رہا ہوں
کہ میز پر دوپہر کا کھانا لگا ہوا ہے
وہ کیا کہ سب تشنہ کامیاں جوں کی توں پڑی ہیں
یہ کیا کہ دریا کا آبیانہ لگا ہوا ہے
ادھر کسی اور ہی زمانے کا طے ہوا تھا
ادھر کوئی اور ہی زمانہ لگا ہوا ہے
ہے روح پرور عزیز یہ جانکنی کا عالم
کہ یار لوگوں کا آنا جانا لگا ہوا ہے
ارشد عزیز
No comments:
Post a Comment