زمیں کو خوف نہیں آگ سے نہ پانی سے
یہی سلوک ہے اپنا بھی زندگانی سے
میں اس کے دل سے نکالی ہوئی ہوں، مجھ سے پوچھ
بڑا نہیں ہے کوئی دکھ بھی لا مکانی سے
میں جانتی تھی پرندے ہیں اڑ ہی جائیں گے
کبھی ڈری نہیں خوابوں کی رائیگانی سے
یہ لڑکی آپ کی یادوں سے لڑ نہیں سکتی
یہ لڑکی آج بھی ڈرتی ہے بدزبانی سے
بچھڑتے وقت بھی اس کو گلے لگایا ہے
میں ہنستے ہنستے نکل آئی ہوں کہانی سے
مجھے سکون ملے گا اداس ہونے پر
میں تھک چکی ہوں محبت کی مہربانی سے
یہ اشک، درد، یہ وحشت، یہ بے دلی اقراء
میں کتنے درد کماؤں گی اک نشانی سے
اقراء عافیہ
No comments:
Post a Comment