Tuesday 26 April 2022

کسی مجبور کی آنکھوں کے اندر دیکھ لیتا ہوں

کسی مجبور کی آنکھوں کے اندر دیکھ لیتا ہوں

میں آنکھیں بند کر کے بھی سمندر دیکھ لیتا ہوں

مجھے جب شاہ کے دربار میں جانے کی خواہش ہو

پھٹی پوشاک میں پھرتا قلندر دیکھ لیتا ہوں

مِرے دشمن نے دونوں ہاتھ جو پیچھے چُھپائے ہیں

مگر میں پھر بھی اُس کے پاس خنجر دیکھ لیتا ہوں

میرا وجدان لگتا ہے کہ میرے ساتھ چلتا ہے

میں اپنا سایہ جب قد کے برابر دیکھ لیتا ہوں

میں جب گھر کی سہولت سے یوں ہی بیزار ہو جاؤں

تو جا کے اپنے ہمسائے کا چھپر دیکھ لیتا ہوں

مجھے لگتا ہے مٹی میں کسی نے زہر ڈالا ہے

میں جب اِس گاؤں کی دھرتی کو بنجر دیکھ لیتا ہوں

در و دیوار کی وحشت پریشاں جب کرے صابر

میں اپنے کمرے کی کھڑکی سے باہر دیکھ لیتا ہوں


ایوب صابر

No comments:

Post a Comment