مانا کہ زندگی سے ہمیں کچھ ملا بھی ہے
اس زندگی کو ہم نے بہت کچھ دیا بھی ہے
محسوس ہو رہا ہے کہ تنہا نہیں ہوں میں
شاید کہیں قریب کوئی دوسرا بھی ہے
قاتل نے کس صفائی سے دھوئی ہے آستیں
اس کو خبر نہیں کہ لہو بولتا بھی ہے
غرقاب کر دیا تھا ہمیں ناخداؤں نے
وہ تو کہو کہ ایک ہمارا خدا بھی ہے
ہو تو رہی ہے کوشش آرائش چمن
لیکن چمن غریب میں اب کچھ رہا بھی ہے
اے قافلے کے لوگو! ذرا جاگتے رہو
سنتے ہیں قافلے میں کوئی رہنما بھی ہے
ہم پھر بھی اپنے چہرے نہ دیکھیں تو کیا علاج
آنکھیں بھی ہیں چراغ بھی ہے آئینہ بھی ہے
اقبال! شکر بھیجو کہ تم دیدہ ور نہیں
دیدہ وروں کو آج کوئی پوچھتا بھی ہے
اقبال عظیم
No comments:
Post a Comment