صبا دیکھ اک دن ادھر آن کر کے
یہ دل بھی پڑا ہے گلستان کر کے
یہی دل جو اک بوند ہے بحر غم کی
ڈبو دے گا سب شہر طوفان کر کے
میاں دل کو اس آئینہ رو کے آگے
جو رکھنا تو یک لخت حیران کر کے
خدا جانے کیا اصلیت غیر کی ہے
دِکھے ہے بنی نوع انسان کر کے
اسے اب رقیبوں میں پاتے ہیں اکثر
رکھا جس کو خود سے بھی انجان کر کے
دِکھا دیں گے اچھا اسی فصلِ گل میں
گریبان کو ہم گریبان کر کے
ہمارے تو اک گھر بھی ہے بھائی مجنوں
پڑے ہیں اسی کو بیابان کر کے
احمد جاوید
No comments:
Post a Comment