Tuesday, 26 April 2022

صبا دیکھ اک دن ادھر آن کر کے

 صبا دیکھ اک دن ادھر آن کر کے

یہ دل بھی پڑا ہے گلستان کر کے

یہی دل جو اک بوند ہے بحر غم کی

ڈبو دے گا سب شہر طوفان کر کے

میاں دل کو اس آئینہ رو کے آگے

جو رکھنا تو یک لخت حیران کر کے

خدا جانے کیا اصلیت غیر کی ہے

دِکھے ہے بنی نوع انسان کر کے

اسے اب رقیبوں میں پاتے ہیں اکثر

رکھا جس کو خود سے بھی انجان کر کے

دِکھا دیں گے اچھا اسی فصلِ گل میں

گریبان کو ہم گریبان کر کے

ہمارے تو اک گھر بھی ہے بھائی مجنوں

پڑے ہیں اسی کو بیابان کر کے


احمد جاوید

No comments:

Post a Comment