پی کے رنگت ہی بدل جاتی ہے
رند کی رند سے چل جاتی ہے
ایک پل کو وہ الٹتا ہے نقاب
جسم میں برق مچل جاتی ہے
دن مشقّت میں گزرتا ہے اور
رات آرام میں ڈھل جاتی ہے
وہ خوشی کی کہ تِرے درد کی ہو
کوئی اک شاخ تو پھل جاتی ہے
اس کو کہتے ہیں نظام ہستی
ماہی ماہی کو نگل جاتی ہے
موت آتی تو ہے چپکے چپکے
آکے بہ بانگ دہل جاتی ہے
ساز دنیا سے شکایت کیسی
آگ تو آگ ہے جل جاتی ہے
ساز دہلوی
No comments:
Post a Comment