Sunday 24 April 2022

پی کے رنگت ہی بدل جاتی ہے

 پی کے رنگت ہی بدل جاتی ہے

رند کی رند سے چل جاتی ہے

ایک پل کو وہ الٹتا ہے نقاب

جسم میں برق مچل جاتی ہے

دن مشقّت میں گزرتا ہے اور

رات آرام میں ڈھل جاتی ہے

وہ خوشی کی کہ تِرے درد کی ہو

کوئی اک شاخ تو پھل جاتی ہے

اس کو کہتے ہیں نظام ہستی

ماہی ماہی کو نگل جاتی ہے

موت آتی تو ہے چپکے چپکے

آکے بہ بانگ دہل جاتی ہے

ساز دنیا سے شکایت کیسی

آگ تو آگ ہے جل جاتی ہے


ساز دہلوی

No comments:

Post a Comment