انوکھا روپ دھارا ہے نرالا قد نکالا ہے
ذرا سی شاخ نے کیسا بڑا برگد نکالا ہے
خوشامد کرنے والے کے حکومت ہاتھ آئی ہے
جو اپنی جان پر کھیلا اسے سرحد نکالا ہے
ہزاروں میں کسی اک آدھ کو دنیا عطا کی ہے
ہمارے واسطے اس نے یہی فیصد نکالا ہے
کہ اس کو سوجھتی رہتی ہے اپنی سی چلانے کی
کہیں تبریز بھیجا ہے کہیں سرمد نکالا ہے
بہت آسان ہے اللہ کو منظر بدل دینا
ابھی مسند نشینی ہے ابھی مسند نکالا ہے
احد میں میم رکھا، حمد سے پہلے الف رکھا
عجب انداز سے اللہ نے احمدﷺ نکالا ہے
کمانا اور کھان،۔ا عیش کرنا اور مر جانا
نہیں مومن! اگر جینے کا یہ مقصد نکالا ہے
حفیظ مومن
No comments:
Post a Comment