یہ ستم بھی خوب ٹھہرا لطف فرمانے کے بعد
جلد جانے کا تقاضا دیر سے آنے کے بعد
اک قلندر سو گیا ہم کو یہ سمجھانے کے بعد
عمر کا شکوہ نہ کرنا عمر ڈھل جانے کے بعد
آج بھی اس گل بدن کو ڈھونڈھتا پھرتا ہوں میں
ہو گیا رخصت جو میرے دل کو مہکانے کے بعد
داستان دل سبھی کی ملتی جلتی ہے یہاں
چھیڑ مت اپنی کہانی اس کے افسانے کے بعد
عشق کے صحرا میں ہیں ساری بہاریں قیس سے
کوئی دیوانہ نہ دیکھا ایسے دیوانے کے بعد
اتنا آساں بھی نہیں ہے اے قلم کے رستمو
صبح کا افسانہ لکھنا شب کے افسانے کے بعد
عمر ساری کاٹ دی آوارہ گردی میں یوں ہی
لوٹ کر آیا نہ میں گھر سے نکل جانے کے بعد
پے بہ پے اس کو پلاتا ہوں مئے عشق وفا
ہوش میں آتا ہے وہ مدہوش ہو جانے کے بعد
اپنا خون دل جو بھر دیتے ہیں نقش وقت میں
زندہ رہتے ہیں وہی کردار مر جانے کے بعد
جھوٹ اوڑھے بھیڑ میں تم رہتے آخر کب تلک
ہو گئے تنہا بلا سے سچ کو اپنانے کے بعد
آج کا شاعر بھی اے شیبان! تاجر ہو گیا
جیب بھر کرے اک غزل گانے کے بعد
شیبان قادری
No comments:
Post a Comment