Saturday 23 April 2022

یہ ستم بھی خوب ٹھہرا لطف فرمانے کے بعد

 یہ ستم بھی خوب ٹھہرا لطف فرمانے کے بعد

جلد جانے کا تقاضا دیر سے آنے کے بعد

اک قلندر سو گیا ہم کو یہ سمجھانے کے بعد

عمر کا شکوہ نہ کرنا عمر ڈھل جانے کے بعد

آج بھی اس گل بدن کو ڈھونڈھتا پھرتا ہوں میں

ہو گیا رخصت جو میرے دل کو مہکانے کے بعد

داستان دل سبھی کی ملتی جلتی ہے یہاں

چھیڑ مت اپنی کہانی اس کے افسانے کے بعد

عشق کے صحرا میں ہیں ساری بہاریں قیس سے

کوئی دیوانہ نہ دیکھا ایسے دیوانے کے بعد

اتنا آساں بھی نہیں ہے اے قلم کے رستمو

صبح کا افسانہ لکھنا شب کے افسانے کے بعد

عمر ساری کاٹ دی آوارہ گردی میں یوں ہی

لوٹ کر آیا نہ میں گھر سے نکل جانے کے بعد

پے بہ پے اس کو پلاتا ہوں مئے عشق وفا

ہوش میں آتا ہے وہ مدہوش ہو جانے کے بعد

اپنا خون دل جو بھر دیتے ہیں نقش وقت میں

زندہ رہتے ہیں وہی کردار مر جانے کے بعد

جھوٹ اوڑھے بھیڑ میں تم رہتے آخر کب تلک

ہو گئے تنہا بلا سے سچ کو اپنانے کے بعد

آج کا شاعر بھی اے شیبان! تاجر ہو گیا

جیب بھر کرے اک غزل گانے کے بعد


شیبان قادری

No comments:

Post a Comment