Monday, 25 April 2022

دھواں سا پھیل گیا دل میں شام ڈھلتے ہی

 دھواں سا پھیل گیا دل میں شام ڈھلتے ہی

بدل گئے مِرے موسم،۔ تِرے بدلتے ہی

سمٹتے پھیلتے سائے کلام کرنے لگے

لہو میں خوف کا پہلا چراغ جلتے ہی

کوئی ملول سی خوشبو فضا میں تیر گئی

کسی خیال کے حرف و صدا میں ڈھلتے ہی

وہ دوست تھا کہ عدو میں نے صرف یہ جانا

کہ وہ زمین پہ آیا مِرے سنبھلتے ہی

بدن کی آگ نے لفظوں کو پھر سے زندہ کیا

حروف سبز ہوئے برف کے پگھلتے ہی

وہ حبس تھا کہ ترستی تھی سانس لینے کو

سو روح تازہ ہوئی جسم سے نکلتے ہی


عباس رضوی

No comments:

Post a Comment