کبھی تو یاد کے گل دان میں سجاؤں اسے
کبھی وہ سامنے بھی ہو تو بھول جاؤں اسے
کھلے جو ہیں مِری شاخ خیال پر کچھ گل
اسی کا کھیل ہے یہ کس طرح بتاؤں اسے
وہ خوشبوؤں کی طرح آئے اور اڑ جائے
میں کیسے پیرہن ذہن میں بساؤں اسے
پتا تو ہو کہ ہے کیا کرب زخم نظارہ
نہ دیکھنا جسے چاہے وہی دکھاؤں اسے
وہ حرف سوختہ سطح زباں تک آئے تو
میں اپنے لہجۂ روشن سے جگمگاؤں اسے
اسی کے رنگ کا پہنا اگر لباس تو کیا
اسی کی طرز میں اب شعر بھی سناؤں اسے
اگر ہے عشق تو پھر ایسا عشق ہو باقر
وہ گنگنائے مجھے اور میں گنگناؤں اسے
باقر نقوی
No comments:
Post a Comment