Monday 25 April 2022

کبھی تو یاد کے گلدان میں سجاؤں اسے

 کبھی تو یاد کے گل دان میں سجاؤں اسے

کبھی وہ سامنے بھی ہو تو بھول جاؤں اسے

کھلے جو ہیں مِری شاخ خیال پر کچھ گل

اسی کا کھیل ہے یہ کس طرح بتاؤں اسے

وہ خوشبوؤں کی طرح آئے اور اڑ جائے

میں کیسے پیرہن ذہن میں بساؤں اسے

پتا تو ہو کہ ہے کیا کرب زخم نظارہ

نہ دیکھنا جسے چاہے وہی دکھاؤں اسے

وہ حرف سوختہ سطح زباں تک آئے تو

میں اپنے لہجۂ روشن سے جگمگاؤں اسے

اسی کے رنگ کا پہنا اگر لباس تو کیا

اسی کی طرز میں اب شعر بھی سناؤں اسے

اگر ہے عشق تو پھر ایسا عشق ہو باقر

وہ گنگنائے مجھے اور میں گنگناؤں اسے


باقر نقوی

No comments:

Post a Comment