تیرے خوشبو میں بسے خط
پیار کی آخری پونجی بھی لٹا آیا ہوں
اپنی ہستی کو بھی لگتا ہے مٹا آیا ہوں
عمر بھر کی جو کمائی تھی گنوا آیا ہوں
تیرے خط آج میں گنگا میں بہا آیا ہوں
آگ بہتے ہوئے پانی میں لگا آیا ہوں
تُو نے لکھا تھا جلا دوں میں تِری تحریریں
سوچ لیں میں نے مگر اور ہی کچھ تدبیریں
تیرے خط آج میں گنگا میں بہا آیا ہوں
آگ بہتے ہوئے پانی میں لگا آیا ہوں
تیرے خوشبو میں بسے خط میں جلاتا کیسے
پیار میں ڈوبے ہوئے خط میں جلاتا کیسے
تیرے ہاتھوں کے لکھے خط میں جلاتا کیسے
تیرے خط آج میں گنگا میں بہا آیا ہوں
آگ بہتے ہوئے پانی میں لگا آیا ہوں
جن کو دنیا کی نگاہوں سے چھپائے رکھا
جن کو اک عمر کلیجے سے لگائے رکھا
دین جن کو جنہیں ایمان بنائے رکھا
جن کا ہر لفظ مجھے یاد ہے پانی کی طرح
یاد تھے مجھ کو جو پیغام زبانی کی طرح
مجھ کو پیارے تھے جو انمول نشانی کی طرح
تُو نے دنیا کی نگاہوں سے جو بچ کر لکھے
سالہا سال مِرے نام برابر لکھے
کبھی دن میں تو کبھی رات کو اٹھ کر لکھے
تیرے رومال ترے خط ترے چھلے بھی گئے
تیری تصویریں تِرے شوخ لفافے بھی گئے
ایک یگ ختم ہوا یگ کے فسانے بھی گئے
تیرے خط آج میں گنگا میں بہا آیا ہوں
آگ بہتے ہوئے پانی میں لگا آیا ہوں
کتنا بے چین انہیں لینے کو گنگا جل تھا
جو بھی دھارا تھا انہیں کے لیے وہ بے کل تھا
پیار اپنا بھی تو گنگا کی طرح نرمل تھا
تیرے خط آج میں گنگا میں بہا آیا ہوں
آگ بہتے ہوئے پانی میں لگا آیا ہوں
راجندر ناتھ رہبر
No comments:
Post a Comment