Monday 25 April 2022

چھٹتا ہی نہیں ہو جسے آزار محبت

 چھٹتا ہی نہیں ہو جسے آزارِ محبت

مایوس ہوں میں بھی کہ ہوں بیمارِ محبت

امکاں نہیں جیتے جی ہو اس قید سے آزاد

مر جائے تبھی چھوٹے گرفتارِ محبت

تقصیر نہ خوباں کی نہ جلاد کا کچھ جرم

تھا دشمن جانی مِرا اقرارِ محبت

ہر جنس کے خواہاں ملے بازارِ جہاں میں

لیکن نہ ملا کوئی خریدارِ محبت

اس راز کو رکھ جی ہی میں تا جی بچے تیرا

زنہار جو کرتا ہو تو اظہارِ محبت

ہر نقش قدم پر ترے سر بیچے ہیں عاشق

ٹک سیر تو کر آج تو بازارِ محبت

کچھ مست ہیں ہم دیدۂ پر خون جگر سے

آیا یہی ہے ساغر سرشارِ محبت

بیکار نہ رہ عشق میں تو رونے سے ہرگز

یہ گریہ ہی ہے آب رخ کارِ محبت

مجھ سا ہی ہو مجنوں بھی یہ کب مانے ہے عاقل

ہر سر نہیں اے میر سزاوارِ محبت


میر تقی میر

No comments:

Post a Comment