مال و متاع کُوچہ و بازار بِک گئے
عہدِ ہوس میں سب در و دیوار بک گئے
قصر شہی میں جُبہ و دستار بک گئے
نیلام گھر میں قافلہ سالار بک گئے
جنسِ وفا کے چاؤ میں آئے تھے صبح دم
بولی لگی تو خود بھی خریدار بک گئے
شب بھر رہی فضا میں وفاداریوں کی گُونج
سُورج چڑھا تو سارے وفادار بک گئے
وہ زور تھا گرانیٔ جنس ہُنر کا آج
میں خُود بھی بک گیا مِرے افکار بک گئے
ہوش و حواس قلب و نظر سجدہ و قیام
اے عشق تیرے سارے ہی غمخوار بک گئے
سرفراز سید
No comments:
Post a Comment