Tuesday, 26 April 2022

کسی درویش جیسا ہو رہا ہوں

 کسی درویش جیسا ہو رہا ہوں

ابھی خود میں ذخیرہ ہو رہا ہوں

یہ ریگِ جسم کچھ پہلے رواں تھی

کئی دن سے میں یکجا ہو رہا ہوں

مشیت کا سمندر خوش نہیں ہے

سمٹ کر میں جزیرہ ہو رہا ہوں

زمینِ نو، مکانِ نو کوئی ہو

میں اس گھر میں پرانا ہو رہا ہوں

اڑانیں بھی، کٹوری، جالیاں بھی

پرندہ اور پنجرہ ہو رہا ہوں

مِری قامت، مگر بونوں کی بستی

میں اپنے قد میں آدھا ہو رہا ہوں

خدا یا بُت بنوں گا، کیا بنوں گا

ابھی پتھر سے چُورا ہو رہا ہوں


قیوم طاہر

No comments:

Post a Comment