کسی درویش جیسا ہو رہا ہوں
ابھی خود میں ذخیرہ ہو رہا ہوں
یہ ریگِ جسم کچھ پہلے رواں تھی
کئی دن سے میں یکجا ہو رہا ہوں
مشیت کا سمندر خوش نہیں ہے
سمٹ کر میں جزیرہ ہو رہا ہوں
زمینِ نو، مکانِ نو کوئی ہو
میں اس گھر میں پرانا ہو رہا ہوں
اڑانیں بھی، کٹوری، جالیاں بھی
پرندہ اور پنجرہ ہو رہا ہوں
مِری قامت، مگر بونوں کی بستی
میں اپنے قد میں آدھا ہو رہا ہوں
خدا یا بُت بنوں گا، کیا بنوں گا
ابھی پتھر سے چُورا ہو رہا ہوں
قیوم طاہر
No comments:
Post a Comment