Monday 25 April 2022

چشم یقیں سے دیکھیے جلوہ گہ صفات میں

 چشم یقیں سے دیکھیے جلوہ گہِ صفات میں

حسن ہی حسن ہے تمام عشق کی کائنات میں

ایسے بھی وقت آئے ہیں عشق کی واردات میں

مستیاں جھوم جھوم اٹھیں دیدۂ کائنات میں

تُو مِری سرگزشت غم سن کے کرے گا کیا ندیم

وقفِ خلش ہے ہر نفس درد ہے بات بات میں

جام و شراب و خم سبو ساقیا ہیں برائے نام

نشہ تِری نظر کا ہے مے کدۂ حیات میں

جس کا انیس تیرا غم جس کی رفیق تیری یاد

اس کو ملا سکون دل بزم تغیرات میں

ترک و طلب کے مرحلے اس طرح ہم نے طے کئے

سامنے میرے وہ رہے آئینۂ حیات میں

عالم بے خودی میں گر سجدہ کیا کوئی وقار

بن گیا نقشِ جاوداں منزل بے ثبات میں


وقار بجنوری

No comments:

Post a Comment