تو پھر اداسیاں لوگوں کی کم زیادہ نہ ہوں
یہ حادثات اگر ایک دم زیادہ نہ ہوں
ہر ایک چیز کی کثرت خراب کرتی ہے
تو خود میں جھانک کبھی، دیکھ ہم زیادہ نہ ہوں
کسی کا ہجر منانا تمہاری مرضی ہے
بس اتنا دھیان رہے آنکھیں نم زیادہ نہ ہوں
ہے میری کاتبِ تقدیر سے یہ ایک دعا
کہ لوحِ ہجر پہ گریے رقم زیادہ نہ ہوں
میں کیا کروں کہ بچھڑنے کا خوف جاتا رہے
مِرے یہ لوگ اسیرِ عدم زیادہ نہ ہوں
کوئی تو راستہ جائے فقط خوشی کی طرف
سڑک سپاٹ رہے، پیچ و خم زیادہ نہ ہوں
منافقت نہیں آتی وگرنہ میرے عدو
کبھی بھی دوست خدا کی قسم زیادہ نہ ہوں
کومل جوئیہ
No comments:
Post a Comment