Monday, 25 April 2022

تو پھر اداسیاں لوگوں کی کم زیادہ نہ ہوں

 تو پھر اداسیاں لوگوں کی کم زیادہ نہ ہوں

یہ حادثات اگر ایک دم زیادہ نہ ہوں

ہر ایک چیز کی کثرت خراب کرتی ہے

تو خود میں جھانک کبھی، دیکھ ہم زیادہ نہ ہوں

کسی کا ہجر منانا تمہاری مرضی ہے

بس اتنا دھیان رہے آنکھیں نم زیادہ نہ ہوں

ہے میری کاتبِ تقدیر سے یہ ایک دعا

کہ لوحِ ہجر پہ گریے رقم زیادہ نہ ہوں

میں کیا کروں کہ بچھڑنے کا خوف جاتا رہے

مِرے یہ لوگ اسیرِ عدم زیادہ نہ ہوں

کوئی تو راستہ جائے فقط خوشی کی طرف

سڑک سپاٹ رہے، پیچ و خم زیادہ نہ ہوں

منافقت نہیں آتی وگرنہ میرے عدو

کبھی بھی دوست خدا کی قسم زیادہ نہ ہوں


کومل جوئیہ

No comments:

Post a Comment