Monday 25 April 2022

مقام درد ہے جب درد کا مزہ جانے

 مقام درد ہے جب درد کا مزہ جانے

ستم نے کھینچ لیا ہاتھ کیوں خدا جانے

کراہ اٹھتا ہے جو ایک چوٹ پر دل کی

وہ اس کے درد کی آسودگی کو کیا جانے

کسی بھی زہر کا ہوتا ہے زہر ہی تریاق

یہ بات چارہ گر زخم دل کجا جانے

اب ایسے شخص کی اس بندگی کو کیا کہئے

جو خود تراشے ہوئے بت کو بھی خدا جانے

چمن کا مرغ ہے وہ طائر خیال نہیں

جو بیچ ارض و سما کے بھی فاصلہ جانے

ہمارے  ہاتھ وہ آتا کہاں کہ ہم خود بھی

اسے خیال و گماں سے بھی ماورا جانے

تمام عمر پڑھے مکتب حیات میں ساز

سمجھ سکے نہ وفا وہ نہ ہم جفا جانے


ساز دہلوی

No comments:

Post a Comment