مقام درد ہے جب درد کا مزہ جانے
ستم نے کھینچ لیا ہاتھ کیوں خدا جانے
کراہ اٹھتا ہے جو ایک چوٹ پر دل کی
وہ اس کے درد کی آسودگی کو کیا جانے
کسی بھی زہر کا ہوتا ہے زہر ہی تریاق
یہ بات چارہ گر زخم دل کجا جانے
اب ایسے شخص کی اس بندگی کو کیا کہئے
جو خود تراشے ہوئے بت کو بھی خدا جانے
چمن کا مرغ ہے وہ طائر خیال نہیں
جو بیچ ارض و سما کے بھی فاصلہ جانے
ہمارے ہاتھ وہ آتا کہاں کہ ہم خود بھی
اسے خیال و گماں سے بھی ماورا جانے
تمام عمر پڑھے مکتب حیات میں ساز
سمجھ سکے نہ وفا وہ نہ ہم جفا جانے
ساز دہلوی
No comments:
Post a Comment