مسافر اب اجازت چاہتا ہے
نئے سفروں کی راحت چاہتا ہے
سوا تیرے تمنا تو نہیں کچھ
مگر تجھ سے دعاوت چاہتا ہے
تعلق کا کوئی ردِ عمل ہو
محبت یا عداوت چاہتا ہے
جینا ہے اگر دنیا میں اک دن
بدن لمبی ریاضت چاہتا ہے
جو معصومہ کبھی نہ حال تک پوچھیں
یہ دل ان سے سخاوت چاہتا ہے
معصومہ رضا
No comments:
Post a Comment