Sunday, 24 April 2022

سوچوں سے دماغ جل رہا ہے

سوچوں سے دماغ جل رہا ہے

صہبا سے ایاغ جل رہا ہے

سینے میں یہ داغ جل رہا ہے

یا کوئی چراغ جل رہا ہے

سینچا تھا جو باغباں نے خوں سے

آج آہ! وہ باغ جل رہا ہے

اشکوں نے لگائی آگ دل کو

برسات میں راغ جل رہا ہے

آؤ، اسے آئینہ دکھائیں

بلبل سے جو زاغ جل رہا ہے

رُک رُک کے قدم اُٹھا رہا ہوں

بُجھ بجھ کے چراغ جل رہا ہے

کل سایہ فشاں جلال تھا جو

وہ نخلِ فراغ، جل رہا ہے


 قاسم جلال

No comments:

Post a Comment