Sunday 24 April 2022

حقیقتوں سے الجھتا رہا فسانہ مرا

 حقیقتوں سے الجھتا رہا فسانہ مِرا 

گزر گیا ہے مجھے روند کے زمانہ مرا 

سمندروں میں کبھی تشنگی کے صحرا میں 

کہاں کہاں نہ پھرا لے کے آب و دانہ مرا 

تمام شہر سے لڑتا رہا مِری خاطر 

مگر اسی نے کبھی حال دل سنا نہ مرا 

جو کچھ دیا بھی تو محرومیوں کا زہر دیا 

وہ سانپ بن کے چھپائے رہا خزانہ مرا 

وہ اور لوگ تھے جو مانگ لے گئے سب کچھ 

یہاں تو شرم تھی دستِ طلب اٹھا نہ مرا 

مجھے تباہ کیا التفات نے اس کے 

اسے بھی آ نہ سکا راس دوستانہ مرا 

کسے قبول کریں اور کس کو ٹھکرائیں 

انہیں سوالوں میں الجھا ہے تانا بانا مرا 


شاہد ماہلی

No comments:

Post a Comment