سوچوں سے دماغ جل رہا ہے
صہبا سے ایاغ جل رہا ہے
سینے میں یہ داغ جل رہا ہے
یا کوئی چراغ جل رہا ہے
سینچا تھا جو باغباں نے خوں سے
آج آہ! وہ باغ جل رہا ہے
اشکوں نے لگائی آگ دل کو
برسات میں راغ جل رہا ہے
آؤ، اسے آئینہ دکھائیں
بلبل سے جو زاغ جل رہا ہے
رُک رُک کے قدم اُٹھا رہا ہوں
بُجھ بجھ کے چراغ جل رہا ہے
کل سایہ فشاں جلال تھا جو
وہ نخلِ فراغ، جل رہا ہے
قاسم جلال
No comments:
Post a Comment