آگ ہوتے ہیں کبھی لوگ دھواں ہوتے ہیں
ایک جیسے تو میاں ہم بھی کہاں ہوتے ہیں
میں گواہی میں تمہیں خواب سناؤں اپنا
بھید مجھ پر تو خدا کے بھی عیاں ہوتے ہیں
کوئی تحلیل بھی کر دے گا نہیں سوچا تھا
سوچ آتی ہی نہیں تھی کہ زیاں ہوتے ہیں
جن کی آواز قدم تیز کئے دیتی ہے
ہوتے ہیں پیار میں کچھ لوگ اذاں ہوتے ہیں
خواہشیں وقت کی ٹہنی سے نہیں جھڑتی ہیں
خواب پچپن میں بھی دیکھے ہیں جواں ہوتے ہیں
زندگی ریل کی پٹری پہ لے جانے والے
پیار کو پیار سمجھ سُود و زیاں ہوتے ہیں
میں نے اک عمر اسی شخص کو ڈھونڈا صاحب
وہ جو کہتا تھا کہ زخموں کے نشاں ہوتے ہیں
فیصل صاحب
No comments:
Post a Comment