آنکھ میں خواب نہیں خواب کا ثانی بھی نہیں
کنجِ لب میں کوئی پہلی سی کہانی بھی نہیں
ڈھونڈتا پھرتا ہوں اک شہر تخیّل میں تجھے
اور میرے پاس تیرے گھر کی نشانی بھی نہیں
بات جو دل میں دھڑکتی ہے محبت کی طرح
اس سے کہنی بھی نہیں اس سے چھپانی بھی نہیں
آنکھ بھر نیند میں کیا خواب سمیٹیں کہ ابھی
چاندنی رات نہیں رات کی رانی بھی نہیں
لیلیٰ حُسن ذرا دیکھ تیرے دشت نژاد
سر بسر خاک ہیں اور خاک اڑانی بھی نہیں
کچے ایندھن میں سلگنا ہے اور اِس شرط کے ساتھ
تیز کرنی بھی نہیں آگ بجھانی بھی نہیں
اب تو یوں ہے کہ تیرے ہجر میں رونے کے لیے
آنکھ میں خون تو کیا خون سا پانی بھی نہیں
ایوب خاور
No comments:
Post a Comment