دل جنسِ محبت کا خریدار نہیں ہے
پہلی سی وہ اب صورتِ بازار نہیں ہے
ہر بار وہی سوچ، وہی زہر کا ساغر
اس پر یہ ستم، جرأتِ انکار نہیں ہے
کچھ اٹھ کے بگولوں کی طرح ہو گئے رقصاں
دل ڈوب گیا لذتِ آغوشِ سحر میں
بیدار ہے اس طرح کہ بیدار نہیں ہے
یہ سر سے نکلتی ہوئی لوگوں کی فصیلیں
دل سے مگر اونچی کوئی دیوار نہیں ہے
دَم سادھ کے بیٹھا ہوں اگرچہ مِرے سر پر
اک شاخِ ثمر دار ہے،۔ تلوار نہیں ہے
دَم لو نہ کہیں دھوپ میں چلتے رہو باقیؔ
اپنے لیے یہ سایۂ اشجار نہیں ہے
باقی صدیقی
No comments:
Post a Comment