Friday 13 May 2016

میں غیر ہوں دل سے یہ کھٹک جائے تو اچھا

میں غیر ہوں دل سے یہ کھٹک جائے تو اچھا
دل اس کا مِرے دل سے اٹک جائے تو اچھا
عاشق پہ تِرے اب سرِ شوریدہ گراں ہے
لا کر تِرے در پر جو پٹک جائے تو اچھا
اس کے دہنِ تنگ سے دل تنگ بہت ہے
غنچے سے یہ کہہ دو کہ چٹک جائے تو اچھا
بے کار دل الٹا، مِرے پہلو میں پڑا ہے
اس زلف کے سر ہو کے لٹک جائے تو اچھا
اے حسرتِ نظارا پڑے خوب یہ کانٹے
دم حلق میں کچھ دیر اٹک جائے تو اچھا
اتنا تو میں بدلوں کہ نہ پہچان سکے وہ
کچھ اور مِرا جسم جھٹک جائے تو اچھا
مۓ خانے سے مسجد کو چلا شوقؔ، یہ دیکھو
رستے میں جو کم بخت بھٹک جائے تو اچھا

شوق قدوائی

No comments:

Post a Comment