Thursday, 19 May 2016

سیلاب کو نہ روکیے رستہ بنائیے

سیلاب کو نہ روکیے رستا بنائیے
کس نے کہا تھا گھر لبِ دریا بنائیے
اب پتھروں پہ دیکھئے خوابوں کے آئینے
اب پانیوں میں پھول کا چہرہ بنائیے
ہونٹوں کا عکس، روپ کا رس، جسم کا طلسم
کیا کیا اسے تراشیے،۔۔ کیا کیا بنائیے
ہم سو گئے شفق کو سمجھ کر چراغِ شب
اب تیرگی کو صبح کا مژدہ بنائیے
مانا کہ وہ گھٹا بھی بگولوں کی دھول تھی
لیکن یہ کیا کہ سل کو ستارہ بنائیے
کب تک وفا کو کیجے رسوائے حرفِ عرض
کب تک عطاؔ طلب کا تماشا بنائیے

عطا شاد

No comments:

Post a Comment