سیلاب کو نہ روکیے رستا بنائیے
کس نے کہا تھا گھر لبِ دریا بنائیے
اب پتھروں پہ دیکھئے خوابوں کے آئینے
اب پانیوں میں پھول کا چہرہ بنائیے
ہونٹوں کا عکس، روپ کا رس، جسم کا طلسم
ہم سو گئے شفق کو سمجھ کر چراغِ شب
اب تیرگی کو صبح کا مژدہ بنائیے
مانا کہ وہ گھٹا بھی بگولوں کی دھول تھی
لیکن یہ کیا کہ سل کو ستارہ بنائیے
کب تک وفا کو کیجے رسوائے حرفِ عرض
کب تک عطاؔ طلب کا تماشا بنائیے
عطا شاد
No comments:
Post a Comment