کوئی شجر بھی سرِ رہگزار تھا ہی نہیں
مِرے لیے یہ سفر سازگار تھا ہی نہیں
جنہوں نے جڑ سے اکھاڑا مجھے اندھیرے میں
وہ کہہ رہے ہیں کہ تُو سایہ دار تھا ہی نہیں
دیار غیر میں اس واسطے بھی جی نہ لگا
یہ راز ہم پہ بہت دیر میں کھلا پیارے
تِری نظر میں ہمارا شمار تھا ہی نہیں
عجب دنوں میں اسے لَوٹنے کی سُوجھی تھی
جب اپنے دل پہ ہمیں اختیار تھا ہی نہیں
پلٹ کے گھر کو میں جاتا تو کس لیے کاشفؔ
وہاں کسی کو میرا انتظار تھا ہی نہیں
کاشف کمال
No comments:
Post a Comment