Monday 23 May 2016

جنہیں شعورِ فن منزل آشنائی رہا

جنہیں شعورِ فنِ منزل آشنائی رہا 
انہی کے دل میں گمانِ شکستہ پائی رہا
سراغ پا نہ سکے آپ اپنی منزل کا
وہ کم سواد، جنہیں شوقِ رہ نمائی رہا
ہمارے دامنِ عصیاں میں‌ منہ چھپاتے رہے
وہ لوگ، جن کو بڑا زعمِ پارسائی رہا
فراق و وصل کی منزل سے ہم گزر تو گئے
رسائی میں‌ بھی، مگر، خوفِ نارسائی رہا
بدلنے والے، تجھے مجھ سے کچھ گلہ تو نہیں
مری فنا کا تقاضا تری بھلائی رہا
وہ ہاتھ بڑھ کے گریبانِ جبر تک پہنچے
وہ ہاتھ، جن میں ‌کبھی کاسۂ گدائی رہا
میں اپنے آپ سے یہ کہہ کے رو پڑا آزرؔ
کہ ایک عمر کا حاصل غمِ جدائی رہا​

راشد آزر

No comments:

Post a Comment